Error:URL rejected: Malformed input to a URL function
/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

سلطنتِ عثمانیہ کے پہلے حکمران "عثمان غازی "کی لازوال داستان۔

کمرہ بے حد سادہ تھا  اور کئی روز کی علالت کے باوجود ان کے خوبصورت چہرے پر غیر معمولی عزم و اعتماد تھا اور ذہین آنکھیں گویا بولتی محسوس ہوتی تھیں۔ دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا۔ آنے والا، مضبوط جسم اور بہت کِھلتی رنگت کا مالک تھا اور اس کے نقوش بستر پر دراز شخصیت سے ملتے جلتے تھے ۔ اس کے چہرے پر مسرت پھوٹی پڑتی تھی۔ اس نے خوشی سے لرزتی آواز سے کہا: "ابا جان! اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے بروصہ فتح کر لیا ہے۔“ بستر پر دراز شخصیت کے چہرے پر بھی مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ ان کے ہونٹوں پر کلمہ شکر خداوندی جاری ہو گیا۔ پھر انہوں نے آنے والے کو مخاطب کیا:

" بیٹے! میں اب اس دنیا سے جا رہا ہوں، لیکن مجھے اطمینان ہے کہ میرا لائق بیٹا میرا جانشین ہو گا۔ میری باتیں غور سے سنو۔ ظلم کبھی اختیار نہ کرنا۔ رعایا سے عدل و انصاف کے ساتھ پیش آنا تا کہ رعایا خوشحال ہو اور ملک آباد رہے ۔ فتوحات کا دامن پھیلانا تا کہ اللہ کا دین ہر سُو عام ہو۔ علما، فضلا اور حکما کو ہمیشہ اپنے قریب رکھنا، ان کے مشوروں پر عمل کرنا اور شریعت کی پیروی کرنا، رعایا اور امراء میں اچھے اخلاق اور اچھی سیرت پیدا کرنے کی جدوجہد کو ہر بات پر مقدم رکھو گے تو انسانیت پھیلے گی۔ میری زندگی کا ایک مقصد تھا، دین پھیلے اور اخلاقِ حسنہ کا سکہ رواں ہو ، تم بھی اس بات کو اپنا مقصد بنالو۔ جو حکمراں رعایا کو عدل و انصاف نہیں دے سکتا وہ حکمراں بننے کا اہل نہیں ہے۔“

"سلطنتِ عثمانیہ کے بانی عثمان غازی"

بیٹے کو گراں قدر نصیحتیں کرنے والی یہ شخصیت عثمان خان کی تھی جو سلطنت عثمانیہ کے بانی تھے اور شہر بروصہ کی فتح کی خوشخبری لے کر آنے والے تھے ، عثمان خان کے صاحب زادے" اور خان"۔ عثمان خان کی شخصیت اس قدر سحر انگیز تھی کہ اس کا تاثُر تقریباً سات صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی روز اوّل کی طرح بھر پور ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالنے اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں عثمان خان کا کردار نا قابل فراموش ہے۔ آپ نے مسلمانوں کو دشمنانِ اسلام کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے پر چمِ جہاد بلند کیا، اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارا اور کئی محاذوں پر اسے شکست کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا۔ کفار کے خلاف جہاد کرنے کی وجہ سے آپ کو عثمان غازی بھی کہا جاتا ہے۔ عثمان خان کا تعلق ترکوں کے قبیلے اوغوز سے ہے ۔ اس قبیلے کے مورثِ اعلیٰ اوغوز خان تھے۔ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے "ترکانِ غز" کہلاتے تھے۔

 

ساتویں صدی ہجری / 13ھویں صدی عیسوی میں جب چنگیز خان اور اس کے بیٹوں نے عالم اسلام پر یلغار کی تو ”ترکان غز“ کا ایک قبیلہ اپنا وطن خراسان چھوڑ کر ، ماہان چلا گیا۔ ماہان موجودہ روس میں ترکستان کے مشہور شہر "مرو" کے قریب ایک گاؤں ہے۔ ماہان کی تباہی کے بعد اس قبیلے کے سربراہ سلیمان شاہ 597/ 1200ء میں اناطولیہ چلے آۓ۔ اناطولیہ سے مراد موجودہ ترکی کا وہ حصہ ہے جو ایشیا میں شامل ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ جہاد کے خواہش مند تھے۔ مشرقی اناطولیہ میں سات برس قیام کے دوران انہوں نے شمال کے عیسائی دہشت پسندوں کا قلع قمع کیا جو اخلاط آکر لوٹ مار کرتے تھے ۔انہوں نے شمال کی باز نطینی (رومی) حکومت سے ٹکر لی جس کا مرکز طرابزون ( موجودہ ترکی کی اہم بندرگاہ) تھا۔ اس کے بعد سلیمان شاہ نے شام کے مشہور شہر حلب کی طرف ہجرت کی۔ مختلف مؤرخین نے ان کے اس اقدام کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ایران میں منگولوں کی واپسی شروع ہو گئی تھی، دوسرے یہ کہ سلیمان شاہ آخری صلیبی جنگ میں شرکت کے لیے بیت المقدس جارہے تھے۔ جب یہ قافلہ حلب کے قریب دریاۓ فرات پر پہنچا تو سلیمان شاہ دریا پار کرتے ہوئے پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔ ان کو قلعہ جعبر کے سامنے دفن کیا گیا۔ ان کی قبر کو"ترک مزاری" کہتے ہیں اور یہ آج بھی قائم ہے۔

مقبرہ سلیمان شاہ(شام)

سلیمان شاہ کے کئی بیٹے تھے۔ ان میں سے ارطغرل اور دوندار نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشرقی اناطولیہ کا سفر جاری رکھا۔ وہ قونیہ کی طرف گامزن تھے کہ راستے میں شہر سیواس کے قریب ایک میدان میں انہیں دو فوجوں میں زبردست جنگ ہوتی نظر آئی۔ ان میں سے ایک حریف طاقتور تھا اور دوسرا کمزور۔ ار طغرل نے کمزور کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے فوجوں کے پرچموں اور سپاہیوں کی وضع قطع اور لباس سے بھی ان کی قومیت اور مذہب کا اندازہ لگالیا ہو۔ بہر حال ارطغرل کے پاس حالا نکہ صرف 444 سوار تھے لیکن وہ اس مختصر سی جمعیت کو لے کر اس طاقتور فوج پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑے جو ایک کمزور فوج کے سپاہیوں کو مار رہی تھی۔ یہ حملہ اس قدر اچانک تھا کہ اس بڑی فوج کے افسروں اور سپاہیوں کو یہی گمان گزرا کہ حریف کو کہیں سے تازہ دم سپاہیوں کی بڑی کمک حاصل ہو گئی ہے ۔ اس زبردست فوج کے سپاہیوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے ۔ جب میدان صاف ہو گیا تو فاتح فوج کے سپہ سالار نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ کون لوگ تھے جو ایک نازک موقع پر رحمت کے فرشتے بن کر آۓ۔ تعارف کی رسم ادا ہوئی تو انکشاف ہوا کہ بھاگنے والی فوج منگولوں کی تھی اور ارطغرل اور ان کے ساتھیوں نے جس فوج کی مدد کی وہ سلجوقی حکمراں علاالدین کیقباد کی تھی۔ عالاالدین کیقباد نے ارطغرل کی بہادری اور جواں مردی کے اعتراف کے طور پر انہیں ایک علاقہ کا حاکم بنادیا۔ اس علاقے کا نام "سغد" بھی لکھا گیا ہے ”سغوت“ بھی اور "سو گود" بھی۔ یہ سر سبز علاقہ دریائے سفاریہ کی بائیں جانب واقع تھا۔ گو کہ یہ کوئی وسیع علاقہ نہ تھا لیکن باز نطینی (رومی) سلطنت کی سرحد کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے اس کی بہت اہمیت تھی۔ علاالدین نے ارطغرل کو ’’اوج بک ‘‘ یعنی سرحدی سردار “ کالقب بھی دیا۔ ارطغرل بہت نڈر اور ہوشیار جرنیل

تھے۔

رومی سرحدی قلعوں میں موجودہ فوجوں کی جانب سے جتنے بھی حملے ہوئے، ارطغرل نے اپنی مختصر سی سپاہ کو خوبی سے استعمال کر کے یہ تمام حملے پسپا کر دیے۔ اس طرح اطراف کے تمام علاقوں میں ترکوں کی شجاعت کے چرچے عام ہو گئے اور بہت سے ترک قبائل ارطغرل سے آملے ، یوں ترکوں کی قوت میں اضافہ ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد ارطغرل نے علاالدین کے نائب کی حیثیت سے منگولوں اور بازنطینیوں کی متحدہ فوج کو شکست دی۔ اس کارنامے پر خوش ہو کر علاالدین نے "اسکی شہر" کو بھی ارطغرل کے زیر انتظام دے دیا۔ اور ان کے تحت آنے والے پورے علاقے کا نام " سلطانونی“ رکھ دیا۔ "اسکی شہر" وسطی اناطولیہ کے مغربی حصے میں واقع ہے اور اپنے گرم چشموں کے لیے مشہور ہے ۔ علا الدین نے ارطغرل کو اپنی فوج کے مقدمۃ الجیش (ہر اول دستے) کا سالار بھی مقرر کر دیا۔ سلطانونی کا علاقہ بھی بہت سرسبز تھا، اس کے بڑے حصے میں گیہوں کی کاشت ہوتی تھی اور انگور کے باغات کی کثرت تھی۔ 656ھ/ 1285ء میں اللہ تعالی نے ار طغرل کو ایک بیٹا عطا کیا۔ ارطغرل نے اپنے بیٹے کا نام عثمان خان رکھا۔ لوگوں نے انہیں "عثمان جوق" یعنی پیارا عثمان یا ننھا عثمان کہنا شروع کر دیا۔ یہ وہی سال ہے جب منگولوں کے ہلاکت خیز طوفان نے بغداد کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عثمان خان کی ولادت کی صورت میں ملت اسلامیہ ایک نئے دور کا آغاز کر رہی تھی۔ ایک بھر پور اور تابناک دور ، جو دولت عُثمانیہ کے نام سے تقریباً ساڑھے چھ سو برس کی طویل مدت پر محیط ہے ۔ عثمان خان نے مروجہ تعلیم پائی اور جنگی فنون پر دسترس حاصل کی۔ جلد ہی وہ مختلف جنگوں میں اپنے والد کی نیابت کرنے لگے۔ "اسکی شہر" سے ملے ہوئے علاقے ’’ایترونی‘‘میں ایک بڑے عالم رہتے تھے جن کا نام شیخ ادہ بالی تھا۔ عثمان اکثر شیخ کے پاس ان کے علم سے فیضیاب ہونے کے لیے جایا کرتے تھے۔ شیخ نے اپنی بیٹی بالا خاتون کی شادی عثمان خان سے کر دی ۔بالا خاتون نہ صرف ظاہری خوبصورتی سے مالا مال تھیں بلکہ علم و عمل اور سیرت کے اعتبار سے بھی بلندیوں پر فائز تھیں۔ انہی خاتون کے بطن سے عثمان خان کے بیٹے اور خان اور علاالدین پیدا ہوئے۔ عثمان کے انتقال کے بعد اور خان ہی نے عثمانی مملکت کی باگ ڈور سنبھالی۔

سلطنتِ عثمانیہ کے دوسرے حکمران"اورخان غازی"

687ھ / 1288ء میں ارطغرل کا انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر 90 سال تھی۔ انہیں سغوت کے قریب دفن کیا گیا۔ ارطغرل کی وفات کے بعد ان کے زیر انتظام تمام علاقہ ، عثمان خان کے سپرد کر دیا گیا۔ عثمان خان نے انتظام اپنے ہاتھ میں لیتے ہی بازنطینی علاقوں کی جانب توجہ دی۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ وہ اسلام کی تبلیغ کرنا چاہتے تھے اور اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لیے کوشاں تھے، دوسری وجہ یہ تھی کہ بازنطینی حکومت آپس کی فرقہ وارانہ جنگوں اور بد نظمی کا شکار تھی، تاہم عثمان خان نے رومی سلطنت پر خود بڑھ کر حملے نہیں کیے بلکہ چھیڑ چھاڑ پہلے خود رومیوں نے شروع کی۔ عثمان خان کے اقتدار سنبھالنے کے صرف ایک سال بعد یعنی 688ھ / 1289ء میں قراحبہ حصار کے قلعہ والوں نے حملہ کیا۔ عثمان خان نے اس قلعے کو فتح کر لیا۔ علاالدین نے یہ قلعہ بھی عثمان خان کی تحویل میں دے دیا،اور اپنے نام کا سکہ ڈھالنے کی اجازت دی اور ان کا نام خطبے میں شامل کر دیا۔ 690ھ/ 1291ء سے 697ھ / 1298ء تک کا عرصہ عثمان خان      نے اپنی قلمرو کے نظم ونسق کو سنوارنے میں صرف کیا۔ ۱۹۷ھ میں رومیوں نے پھر حملہ کیا لیکن عثمان خان نے انہیں مار بھگایا۔ 698ھ/1298ء میں حصار بیلہ چیک کے سردار نے اپنی بیٹی کی شادی کی تقریب میں عثمان خان کو مدعو کیا۔ سردار کا ارادہ یہ تھا کہ اس تقریب میں عثمان خان کو بے بس کر کے انہیں قیدی بنالیا جاۓ، لیکن عثمان خان کو اس سازش کی اطلاع مل گئی تھی۔ وہ اپنے چالیس ساتھیوں کے ہمراہ تقریب میں پہنچے جن کے لباس میں اسلحہ چھپا ہوا تھا۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ تقریب کے دوران میں ان پر قابو پا کر انہیں قید کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور بڑی چابک دستی کے ساتھ قلعے پر قبضہ کر لیا۔

"عیسائی گورنر میخائیل کوسس جس نے اسلام قبول کیا تھا"

اپنے ابتدائی دور میں عثمان خان نے اطراف کے عیسائی قبائل اور حکام کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ خرمنجک کے عیسائی حاکم کوسہ میخائل مسلمان ہو گئے اور انہوں نے رومیوں کے خلاف زبردست جہاد کیا۔ اس دور میں شمال کی سمت اینہ گول، یار حصار اور کوپری حصاری کے قلعے بھی فتح کیے گئے۔ پہلے ان مقامات پر ان امراء کا قبضہ تھا جو رومیوں کو باقاعدگی سے خراج ادا کیا کرتے تھے۔ یہ علاقے پہاڑیوں اور وادیوں پر مشتمل ہیں۔ کوپری حصاری کی فتح بہت اہم ثابت ہوئی کیونکہ بعد میں جو علاقے ملے ہوئے ان کے لیے فوجی کارروائیوں کا مرکز کوپری حصاری کا قلعہ تھا۔ عثمان خان نے جب اطراف کے حکمرانوں کو اسلام کی دعوت پہنچائی تو لفکہ اور قادری کے شہزادوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا، لیکن جن  حکمرانوں نے اسلام کی دعوت کا مذاق اڑایا، عثمان خان نے ان حکمرانوں کے علاقوں کو بھر پور حملہ کر کے فتح کر لیا۔ ان میں مارطونی، گوئیک، طرقلی، قراقین، طقر نیاری وغیرہ کے علاقے شامل ہیں۔ 700ھ /1300ء میں جب آخری سلجوقی حکمراں علاالدین ثانی، منگولوں کے حملے میں جاں بحق ہو گئے تو عثمان خان نے ینی شہر پر قبضہ کر کے اسے اپنا دارالحکومت بنالیا۔ اس عرصے میں عثمان خان نے ایک قریبی ریاست ” قرۃ مان“ کو جنگ کر کے فتح کر لیا۔ رومیوں نے خطرہ بھانپ کر 701ھ /1301ء میں ایک بڑی فوج حملے کے لیے بھیجی۔ عُثمان خان کی فوج قیون حصار کے مقام پر بڑی بہادری سے لڑی۔ دشمن بھاگ کھڑا ہوا۔ چھ سال کے مختصر عرصے میں عثمان خان کی مملکت کی حدود بحرِاسود کے ساحل کو چھورہی تھیں۔ 

اس کے بعد عثمان خان نے "بُرسہ" کی طرف توجہ دی، جو ماضی میں ”بروصہ “ کہلاتا تھا۔ یہ شہر موجودہ مشرقی ترکی میں بحیرہ مرمرہ کے قریب کول الوداق کے دامن میں واقع ہے اور ترکی کا ایک بڑا شہر ہے۔ ماضی میں بھی یہ بڑا اہم شہر تھا جسے بعد میں عثمانیوں نے خوب ترقی دی۔ اس شہر کی حفاظت کے لیے رومی فوج نے جان توڑ کوشش کی۔ شہر والے قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے۔ قیصر روم نے منگول حکمراں غازان خان کو ساتھ ملانے کی بڑی تگ ودو کی۔ اپنی بہن میریا کی شادی غازان خان سے کرنے کا اعلان کیا، لیکن یہ تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں، بہر حال یہ ضرور ہے کہ برسہ والوں نے 717ھ /1317ء سے 726ھ /1326 تک یعنی تقریباً دس سال کے طویل عرصے تک عثمانی فوج کے محاصرے کے خلاف مزاحمت کی لیکن عثمانی فوج کی مستقل مزاجی کے آگے وہ اس سے زیادہ نہ ٹھہر سکے، ان کے پاس سامان خورونوش بھی ختم ہو گیا اور فاقوں تک نوبت آگئی۔ برسہ کے خلاف جہاد کا آغاز عثمان خان نے کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنی اسلامی مملکت کو تیزی سے وسعت دیتے ہوۓ قسطنطنیہ تک پہنچنا چاہتے تھے، یہ خواب ان کی زندگی میں تو پورا نہ ہو سکا البتہ ، دولتِ عثمانیہ کے حکمران سلطان محمد فاتح نے اس خواب کو پورا کر دکھایا۔ برسہ کا محاصرہ طول پکڑ گیا تھا، دس سال کی مدت کم نہیں ہوتی۔ اس دوران عثمان خان علیل ہوگئے ۔ وہ سغد چلے گئے اور برسہ کی فتح کی خوشخبری کا فتح بے تابی سے انتظار کرنے لگے۔

"دس سال کے طویل محاصرے کے بعد اورخان غازی"برسہ" شہر کی فتح کے بعد شہر میں فاتحانہ داخل ہوتے ہوئے"

آخر 726ھ /1326ء میں وہ تاریخی دن آگیا جب عثمان خان کے صاحب زادے اور خان برسہ کی فتح کی خوشخبری لیے ہوۓ اپنے والد کے پاس حاضر ہوئے ۔ اس کے چند دنوں بعد 21 رمضان المبارک 726ھ /21 اگست 1326ء کو عثمان خان سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں برسہ لے جا کر دفن کیا گیا۔ برسہ میں ان کا مزار آج بھی موجود ہے۔ برسہ کو دارالحکومت بنانے کی جو ہدایت عثمان خان نے اپنے بیٹے کو دی تھی وہ نہایت دانشمندانہ تھی۔ اس طرح عثمانیوں نے اس شہر میں اپنے قدم مضبوطی سے جماۓ اور قسطنطنیہ کی فتح کی راہیں ہموار ہو گئیں۔ عثمان خان نے 68 برس کی عمر پائی اور 38سال حکومت کی ۔اس پورے عرصے میں انہوں نے عثمانی مملکت کو جنوب میں قونیہ اور شمال میں بحیرہ مرمرہ اور بحیرہ اسود تک وسیع کر دیا۔ ان کی قلمرو کا طول ایک سو بیس میل اور عرض ساٹھ میل تھا۔ گو کہ یہ مملکت بہت مختصر محسوس ہوتی ہے لیکن یہی ننھا سا پودا صرف دو سو سال میں بڑھ کر ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ عثمانی سلطنت کے اس گھنے درخت کی شاخیں، دسویں عثمانی فرماں روا سلیمان اعظم قانونی (سلیمان اول) کے دور میں پھیل کر ایک طرف بحیرہ ہنگری اور دوسری جانب بصرہ، تیسری طرف بحیرہ کیسپیئن (بحیرہ خزر ) اور چو تھی جانب بحیرہ روم کے مغربی حصے تک پھیلی ہوئی تھیں۔ عثمان خان کے ابتدائی دور میں اناطولیہ میں کئی تحریکیں جاری تھیں۔ یہ تحریکیں فوجی اور روحانی بنیادوں پر قائم تھیں۔ ان میں غازیانِ روم اور باجیانِ روم شامل ہیں۔ ہر تحریک میں تیس ہزار مسلح افراد شامل تھے۔ باجیانِ روم صرف خواتین کی تحریک تھی، تاہم عثمانی مملکت کو وسعت اور استحکام بخشنے میں جس تحریک نے بڑا کردار ادا کیاوہ ’’اخی تحریک“ کہلاتی ہے۔ اس تحریک کا آغاز مولانا جلال الدین رومی اور شیخ محی الدین ابن عربی کی تعلیمات کی کوششوں سے ہوا۔ یہ تحریک عالم اسلام پر منگولوں کے پے در پے حملوں کے رد عمل کے طور پر پیدا ہوئی۔ اس تحریک نے اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف زبردست مزاحمت کی اور مسلمانوں میں اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ ساتھ اجتماعی جہاد کا احساس بھی بیدار کیا۔ عثمان خان نے جب ہوش سنبھالا تو پورے اناطولیہ میں اخی تحریک زور و شور سے چل رہی تھی۔ خود عثمان خان کے والد ارطغرل اس تحریک کے سرگرم رکن تھے، عثمان خان نے بھی بعد میں اس تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ اس تحریک کی خوبی یہ تھی کہ اس کے ارکان، اسلام کو اپنی زندگی کے ہر گوشے پر نافذ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس کے قائدین میں ذی علم شخصیات شامل تھیں۔ یہ قائدین نہ صرف دین کے علم سے بہرہ ور تھے بلکہ عمل کی دنیا کے بھی شہسوار تھے اور جنگی مہارت سے بھی مالا مال تھے۔ تحریک کے ارکان بڑے محنتی تھے، وہ عام مسلمانوں کی مدد کرتے تھے، ان کو ظلم و زیادتی سے بچاتے تھے ، مسافروں کی خدمت کرتے تھے ، لوٹ مار کی روک تھام کرتے تھے ۔ ملحد ، نجومی، بد چلن اور سود خور لوگوں کو اس تحریک میں شامل ہونے کی اجازت نہ تھی۔

مشہور سیاح ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں اس تحریک کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ

"اخی لوگ مسافروں کی خاطر مدارات کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ساری دنیا میں ان سے بڑھ کر کوئی نہیں پایا جا تا۔"

عثمان خان کو اس تحریک کی زبردست حمایت حاصل تھی۔ خود عثمان خان اس تحریک کے اہم رکن تھے۔ عثمان خان کے خسر شیخ ادہ بالی، قرہ خلیل، اخی حسن اور غازی محمود تحریک کے قائدین میں سے تھے۔

’’اخی تحریک“کے بانی شیخ ایدابالی

عثمان خان کا مزاج نہایت سادہ تھا۔ انہوں نے جب ینی شہر فتح کیا تو وہاں اپنے لیے سادہ سا مکان منتخب کیا، حالانکہ یہ شہر یونانیوں کا بڑا مرکز تھا اور محلوں اور عالی شان مکانات کی کوئی کمی نہ تھی۔ عثمان خان کا دستر خوان بھی سادگی کی تصویر ہوتا تھا اور اس پر پُر تکلف کھانے نظر نہیں آتے تھے۔ ان کے ہاں سونے اور چاندی کے برتنوں کا بھی کوئی رواج نہ تھا اور گھر میں سامانِ تعیش کبھی نہ گیا۔ عثمانی حکومت کے اس پہلے سربراہ کے انتقال کے بعد ان کے گھر سے جو مختصر سا اثاثہ بر آمد ہوا وہ یہ تھا: ایک سوتی عمامہ، لکڑی کے دو چمچے ، ایک نمکدان، ایک دیگچی، چند عربی گھوڑے، زراعت کے لیے چند بیل، چند بھیڑیں اور ایک تلوار۔ عثمان خان معمولی کام خود اپنے ہاتھ سے کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے تھے۔ وہ بھیٹروں کی گلہ بانی کو باعث فخر سمجھتے تھے۔ 

عثمان خان بڑے با عمل انسان تھے ۔ نماز کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے ۔ فرض نمازوں کے علاوہ راتوں کو بھی اپنے رب کی عبادت کیا کرتے تھے۔ وہ بے حد دلیر ، باہمت، بے خوف اور مستقل مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت نرم خو، رحم دل اور فیاض بھی تھے۔ مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی نے اپنی کتاب ”تاریخ اسلام“ میں لکھا ہے کہ ”جب عثمان سیدھے کھڑے ہوتے تھے تو ان کے ہاتھ ، ان کے گھٹنوں تک پہنچ جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا شخص غیر معمولی طور پر بہادر ہو تا ہے ۔ وہ اپنے دشمنوں سے بہت سخت بر تاؤ کرتے تھے اور جب تک جنگ جاری رہتی ، پوری قوت سے دشمن پر حملے جاری رکھتے تھے ، لیکن جب دشمن مفتوح ہو جاتا اور اس کی رعایا عثمانی حکومت کی رعایا بن جاتی تو وہ کسی شفیق باپ کی طرح مہربان ہو جاتے تھے۔ وہ خداترس اور شریعت کے پابند حکمراں تھے۔ وہ جب بھی کسی نئے علاقے پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کرتے ، اس علاقے کے باشندوں اور حکمرانوں کو دعوت دیتے کہ اسلام قبول کر لیں یا محکوم بن کر جزیہ دیتے رہیں، ان کا تحفظ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہو گی یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ بالکل درست اسلامی طرز عمل تھا۔ عثمان خان جب بھی اپنی فوج کو کسی علاقے کی سمت پیش قدمی کا حکم دیتے تو ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کر دیتے کہ اسلام کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے حملوں کا بڑا مقصد یہ تھا کہ دنیا کا زیادہ سے زیادہ حصہ اسلام کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکے۔ یہ عثمان خان کی خوش خلقی اور اچھے سلوک ہی کا نتیجہ تھا کہ غیر مسلموں نے ان سے متاثر ہو کر بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیا۔ ان میں مشہور رومی سپہ سالار اور بیجک کے فرمانروا، کوسہ میخائل بھی شامل ہیں۔ ان کے قبول اسلام سے عثمانی مملکت کو بہت تقویت پہنچی۔ عثمان خان اناطولیہ کے پہلے مسلمان حکمراں ہیں جنہوں نے منگولوں کی بڑی فوج کو قتیسہ کے مقام پر زبردست شکست دی۔ اس جنگ میں منگولوں کی بڑی تعداد ماری گئی اور بے شمار کو قیدی بنالیا گیا۔ ان تمام قیدیوں سے بہت اچھا برتاؤ کیا گیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں قیدی مسلمان ہوگئے۔ ان نو مسلم منگولوں نے اسلام کی تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا، اس طرح عثمان خان نے اس قوم سے اشاعت اسلام کا کام لیا جو کچھ ہی عرصہ قبل عالم اسلام کا کام لیا جو کچھ ہی عرصہ قبل عالم اسلام کے بڑے حصے کی بربادی کا باعث بنی تھی۔ وہ اناطولیہ کے پہلے مسلمان حکمراں ہیں جنہوں نے روم اور یونان کے حکمرانوں کو اسلام کی دعوت دی۔

عثمان خان کس قدر نیک نفس حکمراں تھے۔ عثمان خان نے خود کو کبھی سلطان نہیں کہلوایا۔ وہ اپنے آپ کو امیر کہلوانا پسند کرتے تھے۔ عثمان خان کے بہترین انتظام حکومت میں ان کے بہادر اور وفادار رفقائے کار، غازی عبد الرحمن، آیغیود الپ، آقچه قوچہ، قوغور آلپ کا بھی کردار ہے۔ عثمان خان نے اپنے 38 سالہ دور حکومت کا بڑا  حصہ جنگوں میں گزارا۔ وہ عثمانی حکومت کے پہلے حکمران تھے، چنانچہ انہیں علمی خدمات انجام دینے اور تعمیرات کی جانب توجہ دینے کی زیادہ فرصت نہ مل سکی۔ ان کے مذہبی مشیروں میں ان کے خسرشیخ ادہ بالی، المولٰی طور ، ابو القاسم القره حصاری، شیخ عارف باللہ، شیخ عاشق باشا اور شیخ حسن شامل ہیں۔ المولٰی طور مذہبی امور کے قاضی القضاۃ تھے۔ شیخ عارف باللہ جنگوں میں عثمان خان کے ساتھ رہتے تھے۔ شیخ عاشق باشا نے تصوف پر کئی کتابیں تحریر کی تھیں۔ عثمان خان نے اسکی شہر میں ایک مسجد تعمیر کروائی تھی۔ یہ سلطنت عثمانیہ کی پہلی مسجد ہے۔ عثمان خان کے نام پر روۓ زمین پر ایک وسیع و عریض مملکت قائم ہوئی۔ انہی کے نام پر ترکوں نے اپنے آپ کو عثمانی کہنا شروع کیا۔ عثمانی سلطنت 687ھ سے 1334ھ / 1288ء سے 1924ء تک یعنی تقریبا ساڑھے چھ سو برس تک قائم رہی، دنیا کی تاریخ میں اتنی طویل مدت اقتدار شاید ہی کسی خاندان کو نصیب ہوئی ہو۔ پھر یہ کہ اس خاندان نے اسلامی مملکت کو جو استحکام عطا کیا، علم و فن اور تعمیرات کے جو روشن نمونے قائم کیے اور اسلام کی جس طور خدمت کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، عثمانیوں کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے خلافت کو صدیوں تک بر قرار رکھا۔ تمام عثمانی، عثمان خان سے بہت عقیدت رکھتے ہیں اور ترکوں کی داستانوں میں ان کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔ عثمان خان کی زبردست شخصیت کے سحر کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ عثمان خان کے بعد جتنے عثمانی حکمراں اور خلفاء تخت نشین ہوۓ ان سب کی تخت نشینی کے وقت عثمان خان کی تلوار نئے حکمران یا خلیفہ کی کمر سے باندھی جاتی تھی۔ تلوار کمر سے باندھنے کی یہ تقریب مسجد جامع ابو ایوب انصاری میں منعقد ہوتی تھی اور اس موقع پر نئے خلیفہ کے لیے یہ دعا کی جاتی تھی کہ "اللہ تعالی ان میں بھی عثمان جیسی خوبیاں پیدا فرماۓ۔"

"برسہ شہر میں موجود عثمان غازی کا مقبرہ"

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں